EN हिंदी
بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے | شیح شیری
bhula bhi de use jo baat ho gai pyare

غزل

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

حبیب جالب

;

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے

تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
یہ کیسی شام خرابات ہو گئی پیارے

وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے