EN हिंदी
بھینی بھینی درد کی خوشبو لٹانے کے لیے | شیح شیری
bhini bhini dard ki KHushbu luTane ke liye

غزل

بھینی بھینی درد کی خوشبو لٹانے کے لیے

پنکج سرحدی

;

بھینی بھینی درد کی خوشبو لٹانے کے لیے
پھول کھلتے ہیں چمن میں مسکرانے کے لیے

ہر گل تہذیب کو حق ہے کہ وہ کھلتا رہے
اس ریاض دہر میں خوشبو لٹانے کے لیے

یوں سمٹنا بھی ہے کوئی زندگی اے دوستو
زندگی ہے وسعت عالم پہ چھانے کے لیے

کچھ فریب رنگ و بو میں آ ہی جاتا ہے بشر
ورنہ یہ دنیا نہیں ہے دل لگانے کے لیے

ایک جوگن نے بہا کر گیان کی گنگا کہا
گیان ہی کیلاش ہے شنکر کو پانے کے لیے

دوستی میں ہے بجا پنکجؔ سوال شوق بھی
ہوتی ہے یاری مگر قربان جانے کے لیے