EN हिंदी
بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے | شیح شیری
bhigti aaankhon ke manzar nahin dekhe jate

غزل

بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے

معراج فیض آبادی

;

بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے
ہم سے اب اتنے سمندر نہیں دیکھے جاتے

اس سے ملنا ہے تو پھر سادہ مزاجی سے ملو
آئینے بھیس بدل کر نہیں دیکھے جاتے

وضع داری تو بزرگوں کی امانت ہے مگر
اب یہ بکتے ہوئے زیور نہیں دیکھے جاتے

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے