بھیگی بھیگی برکھا رت کے منظر گیلے یاد کرو
دو ہونٹ رسیلے یاد کرو دو نین کٹیلے یاد کرو
تم ساتھ ہمارے چلتے تھے صحرا بھی سہانا لگتا تھا
گل پوش دکھائی دیتے تھے سب ریت کے ٹیلے یاد کرو
گھنگرو کی صدائیں آتی تھیں سنتور کبھی بج اٹھتے تھے
ماحول میں گونجا کرتے تھے سنگیت رسیلے یاد کرو
ہم بھی تھے کچھ بے خود سے تم بھی تھے مدہوش بہت
اور احساس کی چولی کے کچھ بند تھے ڈھیلے یاد کرو
وہ پیار بھری اک منزل تھی تا حد نظر تھے پھول کھلے
تن من میں جوالا بھرتے تھے منظر رنگیلے یاد کرو
غزل
بھیگی بھیگی برکھا رت کے منظر گیلے یاد کرو
غوث سیوانی