EN हिंदी
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا | شیح شیری
bhiD mein ek ajnabi ka samna achchha laga

غزل

بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا

امجد اسلام امجد

;

بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا

سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا

بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا

چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا

دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا

بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا

نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا

اس عدوئے جاں کو امجدؔ میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا