بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے
ایک چہرے پہ کئی چہرے لگائے ہم نے
اس تمنا میں کہ اس راہ سے تو گزرے گا
دیپ ہر راہ میں ہر رات جلائے ہم نے
دل سے نکلی نہ خراش غم ایام کی دھوپ
تیرے ناخن سے کئی چاند بنائے ہم نے
دامن یار نے حق اپنا جتایا نہ کبھی
اشک امڈے بھی تو پلکوں میں چھپائے ہم نے
خود ہوئے غرق زمانے کو بھی غرقاب کیا
ایک آنسو سے وہ طوفان اٹھائے ہم نے
تیرے پہلو سے بھی پہنچے نہ ترے پہلو تک
فاصلے قرب کے گو لاکھ گھٹائے ہم نے
چہرے کتبے سہی کتبوں کی عبارت پہ نہ جا
ابھی لفظوں سے کہاں پردے اٹھائے ہم نے
شعر کہنے سے نہ محبوب نہ دنیا ہی ملی
عمر بھر شعر کہے شعر سنائے ہم نے
غزل
بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے
سلیمان اریب