بھیج کر شہر ہارتی ہے مجھے
پھر وہ گھر پر گزارتی ہے مجھے
وہ کتابی نہیں سو ضد اس کی
طاقچے سے اتارتی ہے مجھے
کتنا اچھا ہے نرگسی ہونا
جھیل دن بھر سنوارتی ہے مجھے
پھر مرا دھیان گیان ٹوٹ گیا
پھر تری بھوک مارتی ہے مجھے
سو بھی جاؤ کہ ایک ادھوری غزل
تم سے بڑھ کر پکارتی ہے مجھے

غزل
بھیج کر شہر ہارتی ہے مجھے
طالب حسین طالب