بھید پائیں تو رہ یار میں گم ہو جائیں
ورنہ کس واسطے بے کار میں گم ہو جائیں
کیا کریں عرض تمنا کہ تجھے دیکھتے ہی
لفظ پیرایۂ اظہار میں گم ہو جائیں
یہ نہ ہو تم بھی کسی بھیڑ میں کھو جاؤ کہیں
یہ نہ ہو ہم کسی بازار میں گم ہو جائیں
کس طرح تجھ سے کہیں کتنا بھلا لگتا ہے
تجھ کو دیکھیں ترے دیدار میں گم ہو جائیں
ہم ترے شوق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں
جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہو جائیں
پیچ اتنے بھی نہ دو کرمک ریشم کی طرح
دیکھنا سر ہی نہ دستار میں گم ہو جائیں
ایسا آشوب زمانہ ہے کہ ڈر لگتا ہے
دل کے مضموں ہی نہ اشعار میں گم ہو جائیں
شہریاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فرازؔ
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں
غزل
بھید پائیں تو رہ یار میں گم ہو جائیں
احمد فراز