بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا
کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا
سوکھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھول ابھرنے تھے
اب بھی نہ ان کی پیاس بجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا
کم کرنیں ایسی ہیں جو اب تک راہ اسی کی تکتی ہیں
یہ اندھیارا اور رہا تو پھر نہ اجالا آئے گا
سمجھا ہے اپنے آپ سے چھٹ کر سارا زمانہ دیکھ لیا
دیکھنا! اپنے آپ میں آ کر یہ کیا کیا شرمائے گا
ایسی گیان اور دھیان کی باتیں ہم جانے پہچانوں سے
تو آخر بھولا ہی کیا تھا تجھ کو کیا یاد آئے گا
کچھ چھوٹے چھوٹے دکھ اپنے کچھ دکھ اپنے عزیزوں کے
ان سے ہی جیون بنتا ہے سو جیون بن جائے گا
چار برس سے بیگانے ہیں سو ہم کیا بیگانے ہیں
روٹھنے والا جیون ساتھی دو دن میں من جائے گا
کس کس راگ کے کیا کیا سر ہیں کس کس سر کے کیا کیا راگ
سیکھے نہ سیکھے گانے والا بے سیکھے بھی گائے گا
عالیؔ جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے
ساتھ بھی دے تو آخر پیارے کوئی کہاں تک جائے گا
غزل
بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا
جمیل الدین عالی