EN हिंदी
بھٹکا کروں گا کب تک راہوں میں تیری آ کر | شیح شیری
bhaTka karunga kab tak rahon mein teri aa kar

غزل

بھٹکا کروں گا کب تک راہوں میں تیری آ کر

آلوک یادو

;

بھٹکا کروں گا کب تک راہوں میں تیری آ کر
تجھ کو بھلا سکوں میں میرے لیے دعا کر

کب تک یہ تیری حسرت کب تک یہ میری وحشت
ان ساری بندشوں سے مجھ کو کبھی رہا کر

ایک عمر سے تجھے میں بے عذر پی رہا ہوں
تو بھی تو پیاس میری اے جام پی لیا کر

کل رات زندگی یہ مجھ سے تڑپ کے بولی
کچھ دیر کو تو ہو کر میرا بھی تو رہا کر

رشتے کئی سنہرے اس زندگی سے پائے
رکھا مگر نہ ہم نے ان کو کبھی بچا کر

دل کے کھنڈر سے پنچھی یادوں کے جا نہ پائے
دیکھا ہے ہم نے ان کو کتنی ہی بار اڑا کر

وہ قرب ہو کہ دوری سب خواہشیں ادھوری
آلوکؔ آ گئے ہیں دریا میں ہم بہا کر