EN हिंदी
بھٹکتی ہیں زمانے میں ہوائیں | شیح شیری
bhaTakti hain zamane mein hawaen

غزل

بھٹکتی ہیں زمانے میں ہوائیں

شہزاد احمد

;

بھٹکتی ہیں زمانے میں ہوائیں
کسے آواز دیں کس کو بلائیں

یہ دل کا شہر مشکل سے بسا تھا
چلو اس شہر میں اب خاک اڑائیں

کبھی دنیا پر اس کے راز کھولیں
کبھی اپنی بھی آگاہی نہ پائیں

کبھی شور قیامت سے کھلے آنکھ
کبھی پتا ہلے اور چونک جائیں

مری دنیا میں رہنا چاہتی ہیں
پرانی صحبتوں کی اپسرائیں

مرے کانوں میں بسنا چاہتی ہیں
گئے گزرے زمانوں کی صدائیں