بھٹک رہی ہے عطاؔ خلق بے اماں پھر سے
سروں سے کھینچ لئے کس نے سائباں پھر سے
دلوں سے خوف نکلتا نہیں عذابوں کا
زمیں نے اوڑھ لیے سر پر آسماں پھر سے
میں تیری یاد سے نکلا تو اپنی یاد آئی
ابھر رہے ہیں مٹے شہر کے نشاں پھر سے
تری زباں پہ وہی حرف انجمن آرا
مری زباں پہ وہی حرف رایگاں پھر سے
ابھی حجاب سا حائل ہے درمیاں میں عطاؔ
ابھی تو ہوں گے لب و حرف راز داں پھر سے
غزل
بھٹک رہی ہے عطاؔ خلق بے اماں پھر سے
عطاء الحق قاسمی