بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا
رکی ہے سوچ کہ اب اور آگے سوچے کیا
ہر ایک راہ ہے سنسان ہر گلی خاموش
یہ شہر شہر خموشاں ہے کوئی بولے کیا
بجھی بجھی سی تمنا تھکی تھکی سی امید
اب اور یاس کے صحرا میں کوئی چاہے کیا
ہوئی ہے صبح سے کس طرح شام شام سے صبح
جو میری جان پہ گزری ہے کوئی سمجھے کیا
ہر ایک فرد ہے یاں اپنی اپنی سوچ میں گم
جواب خود سے گریزاں سوال پوچھے کیا

غزل
بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا
شاہد ماہلی