EN हिंदी
بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا | شیح شیری
bhaTak rahi hai andheron mein aankh dekhe kya

غزل

بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا

شاہد ماہلی

;

بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا
رکی ہے سوچ کہ اب اور آگے سوچے کیا

ہر ایک راہ ہے سنسان ہر گلی خاموش
یہ شہر شہر خموشاں ہے کوئی بولے کیا

بجھی بجھی سی تمنا تھکی تھکی سی امید
اب اور یاس کے صحرا میں کوئی چاہے کیا

ہوئی ہے صبح سے کس طرح شام شام سے صبح
جو میری جان پہ گزری ہے کوئی سمجھے کیا

ہر ایک فرد ہے یاں اپنی اپنی سوچ میں گم
جواب خود سے گریزاں سوال پوچھے کیا