بھٹک گیا کہ منزلوں کا وہ سراغ پا گیا
ہمارے واسطے خلا میں راستہ بنا گیا
صراحی دل کی آنسوؤں کی اوس سے بھری رہی
اسی لیے عذاب ہجر اس کو راس آ گیا
سراب کا طلسم ٹوٹنا بہت برا ہوا
کہ آج تشنگی کا اعتبار بھی چلا گیا
تمام عمر خواب دیکھنے میں منہمک رہا
اور اس طرح حقیقتوں کو واہمہ بنا گیا
غزل
بھٹک گیا کہ منزلوں کا وہ سراغ پا گیا
شہریار