EN हिंदी
بھٹک گیا کہ منزلوں کا وہ سراغ پا گیا | شیح شیری
bhaTak gaya ki manzilon ka wo suragh pa gaya

غزل

بھٹک گیا کہ منزلوں کا وہ سراغ پا گیا

شہریار

;

بھٹک گیا کہ منزلوں کا وہ سراغ پا گیا
ہمارے واسطے خلا میں راستہ بنا گیا

صراحی دل کی آنسوؤں کی اوس سے بھری رہی
اسی لیے عذاب ہجر اس کو راس آ گیا

سراب کا طلسم ٹوٹنا بہت برا ہوا
کہ آج تشنگی کا اعتبار بھی چلا گیا

تمام عمر خواب دیکھنے میں منہمک رہا
اور اس طرح حقیقتوں کو واہمہ بنا گیا