بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہے
جو آئے راس دل اکثر وہ موسم ڈھونڈ لیتا ہے
کسی لمحے اکیلا پن اگر محسوس ہو دل کو
خیال یار کے دامن سے کچھ غم ڈھونڈ لیتا ہے
کسی رت سے رہے مشروط کب ہیں روز و شب میرے
جہاں جیسا یہ چاہے دل وہ موسم ڈھونڈ لیتا ہے
غم فرقت کا دل کو بوجھ کرنا ہو اگر ہلکا
سنانے کو ترے قصے یہ ہمدم ڈھونڈ لیتا ہے
جدائی کب رہی ممکن کسی حالت کوئی صورت
مجھے محفل ہو تنہائی ترا غم ڈھونڈ لیتا ہے
رہے یوں ناز اپنے ذہن پر لاحق غموں میں بھی
خوشی کا اک نہ اک پہلو یہ تاہم ڈھونڈ لیتا ہے
خیال یار ہی درماں غم فرقت کے زخموں کا
کہ بیتے ساتھ لمحوں سے یہ مرہم ڈھونڈ لیتا ہے
غزل
بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہے
شفیق خلش