بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی
نہیں ہے تیر سے خالی یہاں کمان کوئی
تھیں آزمائشیں جتنی تمام مجھ پہ ہوئیں
نہ بچ کے جائے گا اب مجھ سے امتحان کوئی
یہ طوطا مینا کے قصے بہت پرانے ہیں
ہمارے عہد کی اب چھیڑو داستان کوئی
نئے زمانے کی ایسی کچھ آندھیاں اٹھیں
رہا سفینے پہ باقی نہ بادبان کوئی
بکھر کے رہ گئیں رشتوں کی ساری زنجیریں
بچا سکا نہ روایت کو خاندان کوئی
ذکیؔ ہمارا مقدر ہیں دھوپ کے خیمے
ہمیں نہ راس کبھی آیا سائبان کوئی
غزل
بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی
ذکی طارق