EN हिंदी
بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی | شیح شیری
bhare to kaise parinda bhare uDan koi

غزل

بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی

ذکی طارق

;

بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی
نہیں ہے تیر سے خالی یہاں کمان کوئی

تھیں آزمائشیں جتنی تمام مجھ پہ ہوئیں
نہ بچ کے جائے گا اب مجھ سے امتحان کوئی

یہ طوطا مینا کے قصے بہت پرانے ہیں
ہمارے عہد کی اب چھیڑو داستان کوئی

نئے زمانے کی ایسی کچھ آندھیاں اٹھیں
رہا سفینے پہ باقی نہ بادبان کوئی

بکھر کے رہ گئیں رشتوں کی ساری زنجیریں
بچا سکا نہ روایت کو خاندان کوئی

ذکیؔ ہمارا مقدر ہیں دھوپ کے خیمے
ہمیں نہ راس کبھی آیا سائبان کوئی