بھرے سفر میں گھڑی بھر کا آشنا نہ ملا
شدید پیاس میں صحرا سراب سا نہ ملا
گزر گئے تو ہزاروں نشاں تھے پہلے سے
پلٹ کے آئے تو اپنا ہی نقش پا نہ ملا
کبھی جو دھوپ تو پیکر پگھل گئے سارے
کوئی بھی نقش مجھے میرے خواب سا نہ ملا
رکے ہوئے سبھی آنسو چھلک گئے لیکن
وہ شخص پھر بھی نگاہوں سے بولتا نہ ملا
ٹھہر گئی تھی مرے پاس چاندنی کہ اسے
تمہارے شہر میں کوئی بھی جاگتا نہ ملا
ہوا کے ساتھ ہی آواز لوٹ آئی ہے
خلا میں پھرتی رہی کوئی ہم نوا نہ ملا
چلا تو میری نظر میں ہزار راہیں تھیں
بھٹک گیا تو مجھے گھر کا راستہ نہ ملا

غزل
بھرے سفر میں گھڑی بھر کا آشنا نہ ملا
حسنین جعفری