بھرے جو زخم تو داغوں سے کیوں الجھیں؟
گئی جو بیت ان باتوں سے کیوں الجھیں؟
اٹھا کر طاق پہ رکھ دیں سبھی یادیں
نہیں جو تو تری یادوں سے کیوں الجھیں؟
خدا موجود ہے جو ہر جگہ تو پھر
عقیدت کیش بت خانوں سے کیوں الجھیں؟
یہ مانا تھی بڑی کالی شب فرقت
سحر جب ہو گئی راتوں سے کیوں الجھیں؟
ہوائیں جو گلوں سے کھیلتی تھیں کل
مرے محبوب کی زلفوں سے کیوں الجھیں؟
اسی کارن نہیں رویا ترے آگے
مرے آنسو تری پلکوں سے کیوں الجھیں؟
ندی یہ سوچ کر چپ چاپ بہتی ہے
صدائیں اس کی ویرانوں سے کیوں الجھیں؟
انہیں کیا واسطہ آلوکؔ جی غم سے
گلوں کے آشنا خاروں سے کیوں الجھیں؟

غزل
بھرے جو زخم تو داغوں سے کیوں الجھیں؟
آلوک یادو