EN हिंदी
بھرے ہوئے جام پر صراحی کا سر جھکا تو برا لگے گا | شیح شیری
bhare hue jam par surahi ka sar jhuka to bura lagega

غزل

بھرے ہوئے جام پر صراحی کا سر جھکا تو برا لگے گا

زبیر علی تابش

;

بھرے ہوئے جام پر صراحی کا سر جھکا تو برا لگے گا
جسے تیری آرزو نہیں تو اسے ملا تو برا لگے گا

یہ ایسا رستہ ہے جس پہ ہر کوئی بارہا لڑکھڑا رہا ہے
میں پہلی ٹھوکر کے باد ہی گر سنبھل گیا تو برا لگے گا

میں خوش ہوں اس کے نکالنے پر اور اتنا آگے نکل چکا ہوں
کے اب اچانک سے اس نے واپس بلا لیا تو برا لگے گا

یہ آخری کنپکنپاتا جملہ کہ اس تعلق کو ختم کر دو
بڑے جتن سے کہا ہے اس نے نہیں کیا تو برا لگے گا

نہ جانے کتنے غموں کو پینے کے بعد تابش چڑھی اداسی
کسی نے ایسے میں آ کے ہم کو ہنسا دیا تو برا لگے گا