EN हिंदी
بھرم کھلنے نہ پائے بندگی کا | شیح شیری
bharam khulne na pae bandagi ka

غزل

بھرم کھلنے نہ پائے بندگی کا

میکش ناگپوری

;

بھرم کھلنے نہ پائے بندگی کا
وہ ماتم کر رہے ہیں زندگی کا

تعجب ہے خلوص دوستاں پر
نہیں غم دشمنوں کی دشمنی کا

بھڑک اٹھتی ہے دل میں آتش غم
خیال آتا ہے جب ان کی گلی کا

ابھی ہے بند آنکھ انسانیت کی
ابھی دم گھٹ رہا ہے آدمی کا

تمہاری یاد نے کی رہنمائی
خیال آیا مجھے جب بے خودی کا

لگی دل کی ہو الفاظ و بیاں میں
یہی ایک خاص فن ہے شاعری کا

وہی دشمن بنے بیٹھے ہیں میکشؔ
جو دم بھرتے تھے اپنی دوستی کا