بھرا ہوا تری یادوں کا جام کتنا تھا
سحر کے وقت تقاضائے شام کتنا تھا
رخ زوال پہ رنگ دوام کتنا تھا
کہ گھٹ کے بھی مرا ماہ تمام کتنا تھا
تھا تیرے ناز کو کتنا مری انا کا خیال
مرا غرور بھی تیرا غلام کتنا تھا
جو پو پھٹی تو ہر اک داستاں تمام ہوئی
عجب کہ ان کے لیے اہتمام کتنا تھا
انہیں کو یاد کیا جب تو کچھ نہ یاد آیا
وہ لوگ جن کا زمانے میں نام کتنا تھا
ابھی شجر سے جدائی کے دن نہ آئے تھے
پکا ہوا تھا وہ پھل پھر بھی خام کتنا تھا
وہاں تو کوئی نہ تھا ایک اپنے غم کے سوا
مرے مکاں پہ مگر اژدحام کتنا تھا
غزل
بھرا ہوا تری یادوں کا جام کتنا تھا
مظہر امام