EN हिंदी
بھرا گھر ہے کوئی صحرا نہیں ہے | شیح شیری
bhara ghar hai koi sahra nahin hai

غزل

بھرا گھر ہے کوئی صحرا نہیں ہے

شہاب اشرف

;

بھرا گھر ہے کوئی صحرا نہیں ہے
یہاں لیکن کوئی اپنا نہیں ہے

غضب ہے ہو گیا برگد بھی ایندھن
بزرگوں کا کہیں سایہ نہیں ہے

مصیبت میں بھی دامان شرافت
ہمارے ہاتھ سے چھوٹا نہیں ہے

تماشائی ہوں یوں اپنے غموں کا
کہ جیسے درد و غم دیکھا نہیں ہے

محبت کی کرن پھوٹی ہے دل سے
کتابوں سے اسے سیکھا نہیں ہے

یہی احساس دل کو ڈس رہا ہے
تو میرا ہو کے بھی میرا نہیں ہے

شہابؔ اشعار تیرے پڑھ کے دیکھے
حقیقت ہے کوئی قصہ نہیں ہے