بھر آئیں آنکھیں کسی بھولی یاد سے شام کے منظر میں
دو بوندیں میری ہوتیں تیرے بے انت سمندر میں
جو سیراب کریں تری سبزہ گاہیں عمر کے پانی سے
تھوڑی سی ہریالی ہوتی ان کے زرد مقدر میں
جن آنکھوں سے رنگوں والی بارش کا اک وعدہ تھا
وہ آنکھیں تو مٹی ہو گئیں صبح و شام کے چکر میں
آج بھی دھوپ کے سجادے پہ نماز مشقت میں نے پڑھی
آج بھی مالک دوزخ رکھ دی تو نے میرے بستر میں
کبھی کبھی اس کھوج میں دل کے دروازے تک جاتا ہوں
کس نے مجھ سے چھپ کر میری عمر گزاری اس گھر میں

غزل
بھر آئیں آنکھیں کسی بھولی یاد سے شام کے منظر میں
افتخار بخاری