بھنور میں مشورے پانی سے لیتا ہوں
میں ہر مشکل کو آسانی سے لیتا ہوں
جہاں دانائی دیتی ہے کوئی موقع
وہاں میں کام نادانی سے لیتا ہوں
وہ منصوبے ہیں کچھ آباد ہونے کے
میں جن پر رائے ویرانی سے لیتا ہوں
اب اپنے آبلوں کی گھاٹیوں سے بھی
سمندر دیکھ آسانی سے لیتا ہوں
نہیں لیتا مگر لینے پہ آؤں تو
میں بدلہ آگ کا پانی سے لیتا ہوں
نظر انداز کر دیتی ہے جب دنیا
جنم خود اپنی حیرانی سے لیتا ہوں
جہاں مشکل میں پڑ جاتے ہیں گرد و پیش
وہاں میں سانس آسانی سے لیتا ہوں
لگاتا ہے مری بینائی پر تہمت
میں فتوے جس کی عریانی سے لیتا ہوں
غزل
بھنور میں مشورے پانی سے لیتا ہوں
سرفراز زاہد