بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں
شعلہ نمط جلا دل تجھ حسن شعلہ زا سوں
گل کے چراغ گل ہو یک بار جھڑ پڑیں سب
مجھ آہ کی حکایت بولیں اگر صبا سوں
نکلی ہے جست کر کر ہر سنگ دل سوں آتش
چقماق جب پلک کی جھاڑا ہے توں ادا سوں
سجدہ بدل رکھے سر سر تا قدم عرق ہو
تجھ با حیا کے پگ پر آ کر حنا حیا سوں
یاں درد ہے پرم کا بیہودہ سر کہے مت
یہ بات سن ولیؔ کی جا کر کہو دوا سوں
غزل
بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں
ولی محمد ولی