بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون
بچا ہی کیا ہے مری خاک کو نکالے کون
تو دوست ہے تو زباں سے کوئی قرار نہ کر
نہ جانے تجھ کو کسی وقت آزما لے کون
لہو میں تیرتا پھرتا ہے میرا خستہ بدن
میں ڈوب جاؤں تو زخموں کو دیکھے بھالے کون
گہر لگے تھے خنک انگلیوں کے زخم مجھے
اب اس اتھاہ سمندر کو پھر کھنگالے کون
غزل
بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون
زیب غوری