بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں
کہاں تک جذب ہوں گی بجلیاں صبر آزما دل میں
لہو رونے لگیں گے ساز عشرت چھیڑنے والے
ارے یہ درد آواز شکست شیشۂ دل میں
یہ چھینٹیں خون کی کافی ہیں میرے بخشوانے کو
نظر آتی ہے جنت وسعت دامان قاتل میں
ابد تک کوکب بخت سعادت بن کے چمکیں گے
ہوئے ہیں جذب جو قطرے لہو کے تیغ قاتل میں
جنون بے سر و ساماں کی زینت دیکھنے والے
مبادا فرق آئے عشق کی تدبیر منزل میں
ہزاروں سال سوز دل نے کی تھی دوزخ آشامی
قدم رکھتے ہی میرے لگ گئی اک آگ محفل میں
مگر بھولے نہیں ہو یاد اب تک ابرؔ و حامدؔ کی
عزیزؔ آخر وہ قوت کیوں نہیں باقی رہی دل میں
غزل
بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں
عزیز لکھنوی