بے وفا تجھ سے کچھ گلا ہی نہیں
تو تو گویا کہ آشنا ہی نہیں
یا خدا پاس یا بتاں کے پاس
دل کبھو اپنے ہاں رہا ہی نہیں
دل سے جو چاہئے سو باندھئے بات
میں نے واللہ کچھ کہا ہی نہیں
تیرے کوچہ سے آہ جانے کو
دل نہیں یا کہ اپنے پا ہی نہیں
یاں تغافل میں اپنا کام ہوا
تیرے نزدیک یہ جفا ہی نہیں
نامے بلبل نے گو ہزار کئے
ایک بھی گل نے پر سنا ہی نہیں
کچھ نہ ہوتا اثرؔ اثر اس کو
بھلے کو نالہ تو کیا ہی نہیں

غزل
بے وفا تجھ سے کچھ گلا ہی نہیں
میر اثر