بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
تیرے ہوتے اس صفت کا دوسرا ہو جائے گا
شرط کر لو پھر مجھے برباد ہونا بھی قبول
خاک میں مل کر تو حاصل مدعا ہو جائے گا
سر نہ ہوگا دوش پر تو کیا نہ ہوگی گفتگو
ہچکیوں سے شکر قاتل کا ادا ہو جائے گا
سینہ توڑا دل میں چٹکی لی جگر زخمی کیا
کیا خبر تھی تیر بھی تیری ادا ہو جائے گا
میرے کہنے میں ہے دل جب تک مرے پہلو میں ہے
آپ لے لیجے اسے یہ آپ کا ہو جائے گا
ساتھ ان کے جان بھی ارمان بھی جائیں گے آج
صبح سے پہلے روانہ قافلہ ہو جائے گا
میں ملوں تلووں سے آنکھیں وہ کہیں سمجھوں گا میں
یاد رکھ پھیکا اگر رنگ حنا ہو جائے گا
پھر وہی جھگڑے کا جھگڑا ہے اگر قم کہہ دیا
تیغ کا منسوخ سارا فیصلا ہو جائے گا
کس خوشی میں ہائے کیسا رنج پھیلا کیا کروں
کیا خبر تھی ہنستے ہنستے وہ خفا ہو جائے گا
حشر تک کیوں بات جائے کیوں پڑے غیروں کے منہ
گھر میں سمجھوتا ہمارا آپ کا ہو جائے گا
آنکھ سے ہے وصل کا اقرار دل دگدا میں ہے
تم زباں سے اپنی کہہ دوگے تو کیا ہو جائے گا
ظلم سے گر ذبح بھی کر دو مجھے پروا نہیں
لطف سے ڈرتا ہوں یہ میری قضا ہو جائے گا
اس نے چھیڑا تھا مجھے تم جان دوگے کب ہمیں
کہہ دیا میں نے بھی جب وعدہ وفا ہو جائے گا
یوں سوال وصل پر ٹالا کیا برسوں کوئی
صبر کر مضطر نہ ہو تیرا کہا ہو جائے گا
لاکھ دنیا میں حسیں ہوں لاکھ حوریں خلد میں
مجھ کو جو تو ہے وہ کوئی دوسرا ہو جائے گا
توبہ بھی کر لی تھی یہ بھی نشہ کی تھی اک ترنگ
آپ سمجھے تھے کہ بیخودؔ پارسا ہو جائے گا
غزل
بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
بیخود دہلوی