EN हिंदी
بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے | شیح شیری
bekasi hai aur dil nashad hai

غزل

بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے

کلیم عاجز

;

بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے
اب انہیں دونوں سے گھر آباد ہے

اب انہیں کی فکر میں صیاد ہے
جن کے نغموں سے چمن آباد ہے

جو مجھے برباد کر کے شاد ہے
اس ستم گر کو مبارک باد ہے

تم نے جو چاہا وہی ہو کر رہا
یہ ہماری مختصر روداد ہے

ہم نے تم سے رکھ کے امید کرم
وہ سبق سیکھا کہ اب تک یاد ہے

بے بسی بن کر نہ ٹپکے آنکھ سے
دل میں جو اک حسرت فریاد ہے