بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے
اب انہیں دونوں سے گھر آباد ہے
اب انہیں کی فکر میں صیاد ہے
جن کے نغموں سے چمن آباد ہے
جو مجھے برباد کر کے شاد ہے
اس ستم گر کو مبارک باد ہے
تم نے جو چاہا وہی ہو کر رہا
یہ ہماری مختصر روداد ہے
ہم نے تم سے رکھ کے امید کرم
وہ سبق سیکھا کہ اب تک یاد ہے
بے بسی بن کر نہ ٹپکے آنکھ سے
دل میں جو اک حسرت فریاد ہے
غزل
بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے
کلیم عاجز