بے کل ہے مکھ نگاہ میں بوسوں کی پیاس ہے
کچھ تو بتا تو کس سے بچھڑ کر اداس ہے
تصویر میں جھکا ہے ندی پر کدم کا پیڑ
پانی میں پیرتا ہوا بت بے لباس ہے
تیری قسم کہ تجھ کو بنا کر متاع زیست
اب کوئی آرزو ہے نہ اب کوئی آس ہے
کھلتی ہے روز شام کو اک چمپئی دھنک
گاؤں کے اس مکاں پہ جو دریا کے پاس ہے
کمرے کی شیلف پر ہے سجی بدھ کی مورتی
گلدان میں چنی ہوئی جنگل کی گھاس ہے
دیکھوں تجھے تو روح کا صحرا سلگ اٹھے
چاہوں تجھے تو تیری لگن میں مٹھاس ہے
جوڑے کی قوس میں گندھے کچھ مالتی کے پھول
ساڑی کی سلوٹوں میں لونڈر کی باس ہے
غزل
بے کل ہے مکھ نگاہ میں بوسوں کی پیاس ہے
ناصر شہزاد