EN हिंदी
بے کل ہے مکھ نگاہ میں بوسوں کی پیاس ہے | شیح شیری
bekal hai mukh nigah mein boson ki pyas hai

غزل

بے کل ہے مکھ نگاہ میں بوسوں کی پیاس ہے

ناصر شہزاد

;

بے کل ہے مکھ نگاہ میں بوسوں کی پیاس ہے
کچھ تو بتا تو کس سے بچھڑ کر اداس ہے

تصویر میں جھکا ہے ندی پر کدم کا پیڑ
پانی میں پیرتا ہوا بت بے لباس ہے

تیری قسم کہ تجھ کو بنا کر متاع زیست
اب کوئی آرزو ہے نہ اب کوئی آس ہے

کھلتی ہے روز شام کو اک چمپئی دھنک
گاؤں کے اس مکاں پہ جو دریا کے پاس ہے

کمرے کی شیلف پر ہے سجی بدھ کی مورتی
گلدان میں چنی ہوئی جنگل کی گھاس ہے

دیکھوں تجھے تو روح کا صحرا سلگ اٹھے
چاہوں تجھے تو تیری لگن میں مٹھاس ہے

جوڑے کی قوس میں گندھے کچھ مالتی کے پھول
ساڑی کی سلوٹوں میں لونڈر کی باس ہے