بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں
یاروں سے ہمیں بہت گلے ہیں
یاد آئے ہیں دوستوں کے میلے
جب پھول چمن چمن کھلے ہیں
شاکی ہوں میں جن کی بے رخی کا
اکثر وہی بے مطلب ملے ہیں
یہ داغ یہ زخم بے کسی کے
شاید تری چاہ کے صلے ہیں
اس طرح چھٹی کہ پھر نہ آئی
ہم کو تری یاد سے گلے ہیں
گزرے ہیں نظر بچا کے شفقتؔ
وہ راہ میں جب کبھی ملے ہیں

غزل
بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں
شفقت کاظمی