EN हिंदी
بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں | شیح شیری
begana mile hai jab mile hain

غزل

بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں

شفقت کاظمی

;

بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں
یاروں سے ہمیں بہت گلے ہیں

یاد آئے ہیں دوستوں کے میلے
جب پھول چمن چمن کھلے ہیں

شاکی ہوں میں جن کی بے رخی کا
اکثر وہی بے مطلب ملے ہیں

یہ داغ یہ زخم بے کسی کے
شاید تری چاہ کے صلے ہیں

اس طرح چھٹی کہ پھر نہ آئی
ہم کو تری یاد سے گلے ہیں

گزرے ہیں نظر بچا کے شفقتؔ
وہ راہ میں جب کبھی ملے ہیں