بیدار کی نگاہ میں کل اور آج کیا
لمحوں سے بے نیاز کا کوئی علاج کیا
قدریں بھٹک رہی ہیں ابھی کھنڈرات میں
ہم عہد ارتقا سے وصولیں خراج کیا
ہر ذہن بے لگام ہے ہر فکر بے قیاس
آزاد نسل و قوم کے رسم و رواج کیا
کس کو وہاں پہ کیجیئے تفریق آشنا
جس کا جہاں لگاؤ نہ ہو احتجاج کیا
زندہ ہو جب ضمیر تو لازم ہے احتیاط
پلکوں کی چھاؤنی میں نگاہوں کی لاج کیا
کوئی بھی رت ہو بھوک کی فصلیں اگائیے
ہم اینٹ بو رہے ہیں تو پائیں اناج کیا
موسم کو چاہئے نہ مری پیروی کرے
شائقؔ اسیر درد کا اپنا مزاج کیا
غزل
بیدار کی نگاہ میں کل اور آج کیا
شائق مظفر پوری