EN हिंदी
بیداد تغافل سے تو بڑھتا نہیں غم اور | شیح شیری
bedad-e-taghaful se to baDhta nahin gham aur

غزل

بیداد تغافل سے تو بڑھتا نہیں غم اور

اخگر مشتاق رحیم آبادی

;

بیداد تغافل سے تو بڑھتا نہیں غم اور
میرے لئے سیکھو کوئی انداز ستم اور

مغموم تو دونوں ہیں مگر فرق ہے اتنا
ان کو کوئی غم اور ہے مجھ کو کوئی غم اور

ظاہر میں جفاؤں پہ وہ شرمندہ ہیں لیکن
نظریں یہی کہتی ہیں ابھی ہوں گے ستم اور

ہر بات میں کرتے ہو جو تفریق من و تو
اس کا تو یہ مطلب ہوا تم اور ہو ہم اور