بیداد تغافل سے تو بڑھتا نہیں غم اور
میرے لئے سیکھو کوئی انداز ستم اور
مغموم تو دونوں ہیں مگر فرق ہے اتنا
ان کو کوئی غم اور ہے مجھ کو کوئی غم اور
ظاہر میں جفاؤں پہ وہ شرمندہ ہیں لیکن
نظریں یہی کہتی ہیں ابھی ہوں گے ستم اور
ہر بات میں کرتے ہو جو تفریق من و تو
اس کا تو یہ مطلب ہوا تم اور ہو ہم اور

غزل
بیداد تغافل سے تو بڑھتا نہیں غم اور
اخگر مشتاق رحیم آبادی