بے چین دل ہے پھر بھی چہرے پہ دل کشی ہے
مفلس کی زندگی میں جو کچھ ہے قدرتی ہے
احساس کا پرندہ جاگا ہے میرے اندر
اس کی عطا سے خوش ہوں دل محو بندگی ہے
صحراؤں سے تو پیاسے لوٹے نہیں کبھی ہم
دریا کے بیچ میں ہیں تو پیاس لگ رہی ہے
ہم سوچتے ہیں اکثر کیوں حشر سا ہے برپا
جذبوں میں ہے طراوت فکروں میں شعلگی ہے
موسم کی ہی طرح اب انساں بدل رہے ہیں
یہ فیض آگہی ہے یا قصد گمرہی ہے
کس سے کہوں میں احسنؔ روز ازل سے اب تک
کٹیوں میں تیرگی ہے محلوں میں روشنی ہے
غزل
بے چین دل ہے پھر بھی چہرے پہ دل کشی ہے
احسن امام احسن