بے زبانوں کی کہانی کی زباں ہوتے رہے
ہم تو یارو بارہا اشک رواں ہوتے رہے
دل پہ چاہے جتنے خنجر ہو لگے اے جان جاں
اس گلی میں ہم سراسر رائیگاں ہوتے رہے
جام ایسا ڈال ساقی زہر سا اب پیس کر
آج اس کو دیکھ سب جلوے عیاں ہوتے رہے
جان مقتل پر لٹا دی بے سبب خوددارؔ نے
جرم اس کے لن ترانی سے بیاں ہوتے رہے
اس نگر میں بے اثر بادہ کشی خوددارؔ کی
وہ نہ جانے کن غموں میں ناتواں ہوتے رہے

غزل
بے زبانوں کی کہانی کی زباں ہوتے رہے
مدھوکر جھا خوددار