EN हिंदी
بے زبانوں کی کہانی کی زباں ہوتے رہے | شیح شیری
be-zabanon ki kahani ki zaban hote rahe

غزل

بے زبانوں کی کہانی کی زباں ہوتے رہے

مدھوکر جھا خوددار

;

بے زبانوں کی کہانی کی زباں ہوتے رہے
ہم تو یارو بارہا اشک رواں ہوتے رہے

دل پہ چاہے جتنے خنجر ہو لگے اے جان جاں
اس گلی میں ہم سراسر رائیگاں ہوتے رہے

جام ایسا ڈال ساقی زہر سا اب پیس کر
آج اس کو دیکھ سب جلوے عیاں ہوتے رہے

جان مقتل پر لٹا دی بے سبب خوددارؔ نے
جرم اس کے لن ترانی سے بیاں ہوتے رہے

اس نگر میں بے اثر بادہ کشی خوددارؔ کی
وہ نہ جانے کن غموں میں ناتواں ہوتے رہے