بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
بس ہے تیری یہ آرزو مجھ کو
گردش چرخ سے نہیں پردا
سر پہ چہیے وہ خاک کو مجھ کو
زاہدا ہے مری نماز نیاز
خون دل رونا ہے وضو مجھ کو
ناصحا جا کہ ذکر عشق سوا
خوش نہیں آتی گفتگو مجھ کو
بن رہا ہوں میں عشق کا مظلوم
نہ ستا اے رقیب تو مجھ کو
تجھ سے چاہوں ہوں ناز برداری
ہو گئی کچھ تری سی خو مجھ کو
صحبت غیر سے ہوا مکروہ
بیٹھنا تیرے روبرو مجھ کو
تجھ سے محروم یوں رہوں صد حیف
کیا کیا دل میں تھیں آرزو مجھ کو
یار ہرجائی نے کیا حسرتؔ
در بدر اور کو بہ کو مجھ کو
غزل
بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
حسرتؔ عظیم آبادی