بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو
شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو
ہاں نہ پوچھ اک گرفتار قفس کی زندگی
ہم صفیران چمن کچھ آشیانے کی کہو
اڑ گیا ہے منزل دشوار میں غم کا سمند
گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو
بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں
اس نگاہ ناز کی باتیں بنانے کی کہو
داستاں وہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا
شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو
کچھ دل مرحوم کی باتیں کرو اے اہل علم
جس سے ویرانے تھے آباد اس دوانے کی کہو
داستان زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے
جو ازل سے چھڑ گیا ہے اس فسانے کی کہو
یہ فسون نیم شب یہ خواب ساماں خامشی
سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو
کوئی کیا کھائے گا یوں سچی قسم جھوٹی قسم
اس نگاہ ناز کی سوگندھ کھانے کی کہو
شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن
کچھ فراقؔ اپنی سناؤ کچھ زمانے کی کہو
غزل
بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو
فراق گورکھپوری