بے طرح آپ کی یادوں نے ستایا ہے مجھے
چاندنی راتوں نے آ آ کے رلایا ہے مجھے
آپ سے کوئی شکایت نہ زمانے سے گلہ
میرے حالات نے مجبور بنایا ہے مجھے
آج پھر اوج پہ ہے اپنا مقدر شاید
آج پھر آپ نے نظروں سے گرایا ہے مجھے
اپنے بیگانے ہوئے اور زمانہ دشمن
بے دماغی نے مری دن یہ دکھایا ہے مجھے
کون سے دشت میں لے آیا مجھے میرا جنوں
مڑ کے دیکھا ہے تو کچھ خوف سا آیا ہے مجھے
پھر ہوئے آج بہم جام گل و نغمۂ شب
پھر مرے ماضی نے ممتازؔ بلایا ہے مجھے
غزل
بے طرح آپ کی یادوں نے ستایا ہے مجھے
ممتاز میرزا