بے تمنا ہوں خستہ جان ہوں میں
ایک اجڑا ہوا مکان ہوں میں
جنگ تو ہو رہی ہے سرحد پر
اپنے گھر میں لہولہان ہوں میں
غم و آلام بھی ہیں مجھ کو عزیز
قدر دانوں کا قدردان ہوں میں
ضبط تہذیب ہے محبت کی
وہ سمجھتے ہیں بے زبان ہوں میں
لب پہ اخلاص ہاتھ میں خنجر
کیسے یاروں کے درمیان ہوں میں
چھید ہی چھید ہیں فقط جس میں
ایسی کشتی کا بادبان ہوں میں
جو کسی کو بھی آج یاد نہیں
بھولی بسری وہ داستان ہوں میں
یا گراں گوش ہے نگر کا نگر
یا کسی دشت میں اذان ہوں میں
شاعری ہو کہ عاشقی عابدؔ
ہر روایت کا پاسبان ہوں میں
غزل
بے تمنا ہوں خستہ جان ہوں میں
عابد مناوری