EN हिंदी
بے تہی یہی ہوگی یہ جہاں کہیں ہوں گے | شیح شیری
be-tahi yahi hogi ye jahan kahin honge

غزل

بے تہی یہی ہوگی یہ جہاں کہیں ہوں گے

محب عارفی

;

بے تہی یہی ہوگی یہ جہاں کہیں ہوں گے
سطح کاٹنے والے سطح آفریں ہوں گے

آفتاب ہٹ جائے جھلملانے والے ہی
آسمان ویراں میں رونق آفریں ہوں گے

زندگی منانے کو وہم بھی غنیمت ہیں
ہم بھی وہم ہی ہوں گے وہم اگر نہیں ہوں گے

یہ جتا دیا آخر مجھ کو میرے اجزا نے
اپنے آپ میں رہیے ورنہ بس ہمیں ہوں گے

دل مرا مدبر ہے بند و بست عالم کا
مسئلے کہیں کے ہوں فیصلے یہیں ہوں گے

میرے ساتھ آئے ہیں میرے ساتھ جائیں گے
ہوں جہاں قدم میرے راستے وہیں ہوں گے

وقت کی سواری پر جو رکی ہوئی ہوگی
فاصلے کروں گا طے جو کہیں نہیں ہوں گے

رنگ و نور پرتو ہیں جن کی تاب کاری کے
تیرگی کے وہ جلوے کتنے دل نشیں ہوں گے

سوچئے تو صحرا ہے ڈوبیے تو دریا ہے
ایک دن محبؔ صاحب جس کے تہہ نشیں ہوں گے