بے تحاشا سی لاابالی ہنسی
چھن گئی ہم سے وہ جیالی ہنسی
لب کھلے جسم مسکرانے لگا
پھول کا کھلنا تھا کہ ڈالی ہنسی
مسکرائی خدا کی محویت
یا ہماری ہی بے خیالی ہنسی
کون بے درد چھین لیتا ہے
میرے پھولوں کی بھولی بھالی ہنسی
وہ نہیں تھا وہاں تو کون تھا پھر
سبز پتوں میں کیسے لالی ہنسی
دھوپ میں کھیت گنگنانے لگے
جب کوئی گاؤں کی جیالی ہنسی
ہنس پڑی شام کی اداس فضا
اس طرح چائے کی پیالی ہنسی
میں کہیں جاؤں ہے تعاقب میں
اس کی وہ جان لینے والی ہنسی
غزل
بے تحاشا سی لاابالی ہنسی
بشیر بدر