بے تابیوں میں اشکوں میں نالوں میں گھر گئے
یعنی ہم اپنے چاہنے والوں میں گھر گئے
آیا نہ خواب میں بھی کبھی اپنا کچھ خیال
ہم اس قدر اندھیروں اجالوں میں گھر گئے
سب اہل ظرف راہ عمل پر ہوئے رواں
کم ظرف ادھر ادھر کے خیالوں میں گھر گئے
ان کے قدم نہ چوم سکیں منزلیں کبھی
راہی جو اپنے پاؤں کے چھالوں میں گھر گئے
ان کو خوشی میں ان کی محبت میں قید ہوں
مجھ کو خوشی وہ میرے خیالوں میں گھر گئے
جن کو نصیب ہو نہ سکیں دل کی مستیاں
وہ بد نصیب مے کے پیالوں میں گھر گئے
اک پل بھی رہ سکے نہ اکیلے ہم اے جگرؔ
نکلے جو بھیڑ سے تو خیالوں میں گھر گئے

غزل
بے تابیوں میں اشکوں میں نالوں میں گھر گئے
جگر جالندھری