بے شوق طلب بے ذوق نظر بے رنگ تھی ان کی گل بدنی
یہ کوہکن و مجنوں کی نظر شیریں بھی بنی لیلیٰ بھی بنی
دیکھے ہوئے ان کو دیر ہوئی ہر نقش ابھی تک تازہ ہے
بے گانہ وشی مستانہ روی جادو نظری شیریں سخنی
ہم اپنے ہی گھر میں رہتے تھے جب تیری نظر میں رہتے تھے
اب روز ستاتی ہے ہم کو اے دوست وطن میں بے وطنی
پھولوں میں جھلکتے ہیں چہرے شاخوں پہ گماں آغوش کا ہے
کچھ ایسی بسی ہے نظروں میں گل پیرہنی نازک بدنی
نظروں میں نہ بے مہری کی ادا باتوں میں نہ وہ خوشبوئے وفا
کتنے ہی دلوں کو توڑ گئی ظالم کی جبیں کی بے شکنی
اس بزم طرب میں ہنسنے پر مجبور ہمیں قسمت نے کیا
پھولوں سے جہاں شعلے لپکیں ساغر میں گھلے ہیرے کی کنی
شعلوں میں نکھرتے ہیں جوہر قسمت پہ فریدیؔ طنز نہ کر
غم ایسی ہی نعمت ہے جس کو پاتے ہیں یہاں قسمت کے دھنی
غزل
بے شوق طلب بے ذوق نظر بے رنگ تھی ان کی گل بدنی
مغیث الدین فریدی