بے شغل نہ زندگی بسر کر
گر اشک نہیں تو آہ سر کر
دے طول امل نہ وقت پیری
ہوئی صبح فسانہ مختصر کر
کچھ طرفہ مرض ہے زندگی بھی
اس سے جو کوئی چھٹا سو مر کر
کعبہ کے سفر میں کیا ہے زاہد
بن جائے تو آپ سے سفر کر
کیا دیکھے ہے آئینہ کو پیارے
ایدھر بھی تو ایک دم نظر کر
وہ باعث زیست شاید آ جائے
اے جان تو جائیو ٹھہر کر
فرصت ہے غنیمت آج غافل
جو ہو سکے نفع یا ضرر کر
یہ دہر ہے کارگاہ مینا
جو پاؤں رکھے تو یاں سو ڈر کر
تعمیر پہ گھر کی مر نہ اے دل
قائمؔ کی طرح دلوں میں گھر کر
غزل
بے شغل نہ زندگی بسر کر
قائم چاندپوری