EN हिंदी
بے شغل نہ زندگی بسر کر | شیح شیری
be-shaghl na zindagi basar kar

غزل

بے شغل نہ زندگی بسر کر

قائم چاندپوری

;

بے شغل نہ زندگی بسر کر
گر اشک نہیں تو آہ سر کر

دے طول امل نہ وقت پیری
ہوئی صبح فسانہ مختصر کر

کچھ طرفہ مرض ہے زندگی بھی
اس سے جو کوئی چھٹا سو مر کر

کعبہ کے سفر میں کیا ہے زاہد
بن جائے تو آپ سے سفر کر

کیا دیکھے ہے آئینہ کو پیارے
ایدھر بھی تو ایک دم نظر کر

وہ باعث زیست شاید آ جائے
اے جان تو جائیو ٹھہر کر

فرصت ہے غنیمت آج غافل
جو ہو سکے نفع یا ضرر کر

یہ دہر ہے کارگاہ مینا
جو پاؤں رکھے تو یاں سو ڈر کر

تعمیر پہ گھر کی مر نہ اے دل
قائمؔ کی طرح دلوں میں گھر کر