بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتل عام کرو
خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے
ٹھوکریں کھاؤ اور سلام کرو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو جاؤ اپنا کام کرو
خواہشیں جانے کس طرف لے جائیں
خواہشوں کو نہ بے لگام کرو
میزبانوں میں ہو جہاں ان بن
ایسی بستی میں مت قیام کرو
آپ چھٹ جائیں گے ہوس والے
تم ذرا بے رخی کو عام کرو
ڈھونڈتے ہو گروں پڑوں کو کیوں
اڑنے والوں کو زیر دام کرو
دینے والا بڑائی بھی دے گا
تم سمائی کا اہتمام کرو
بد دعا دے کے چل دیا وہ فقیر
کہہ دیا تھا کہ کوئی کام کرو
یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
کتنا جھک کر کسے سلام کرو
سرپھروں میں ابھی حرارت ہے
ان جیالوں کا احترام کرو
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظؔ
آستینوں کا انتظام کرو
غزل
بے سہاروں کا انتظام کرو
حفیظ میرٹھی