بے سبب ٹھیک نہیں گھر سے نکل کر جانا
جستجو ہو کوئی دل میں تو سفر پر جانا
دن کے تپتے ہوئے موسم میں بھٹکنا ہر سو
شام آئے تو پرندوں کی طرح گھر جانا
ہر گزرتے ہوئے بے رنگ سے موسم کے لیے
اک نئی رت کے نئے پھول یہاں دھر جانا
لوگ جلتا ہوا گھر دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
اور ہم نے اسے اب اپنا مقدر جانا
ذہن مفلوج تو افکار ہیں آسیب زدہ
یہ بھی کیا وقت ہے ہر بات پہ ڈر ڈر جانا
سائباں آب رواں پھول بہاریں خوشبو
ان سرابوں سے ہر اک گام ہے بچ کر جانا
اس کی پلکوں پہ چمک اٹھے ہیں جب بھی آنسو
قطرے قطرے کو مرے دل نے سمندر جانا

غزل
بے سبب ٹھیک نہیں گھر سے نکل کر جانا
سعید عارفی