بے سبب خوف سے دل میرا لرزتا کیوں ہے
بات بے بات یوں ہی خود سے الجھتا کیوں ہے
شور ایسے نہ کرے بزم میں خاموش رہے
اک تواتر سے خدا جانے دھڑکتا کیوں ہے
موم کا ہو کے بھی پتھر کا بنا رہتا تھا
اب یہ جذبات کی حدت سے پگھلتا کیوں ہے
ہجر کے جتنے بھی موسم تھے وہ کاٹے ہنس کر
پھر سر شام ہی یادوں میں سسکتا کیوں ہے
اس کے ہونے سے میں انکار کروں تو کیسے
عکس اس کا مری آنکھوں میں جھلکتا کیوں ہے
جب بھی خاموشی سے تنہائی میں بیٹھی جا کر
کرب سا اس کی رفاقت کا چھلکتا کیوں ہے
پھوٹ جائے یہ کسی طور کوئی ٹھیس لگے
بن کے پھوڑا سا وہ اب دل میں ٹپکتا کیوں ہے
جو مقدر میں لکھا تھا وہ ہوا ہے اسریٰؔ
خواب کی باتوں سے اس طرح مچلتا کیوں ہے
غزل
بے سبب خوف سے دل میرا لرزتا کیوں ہے
اسریٰ رضوی