بے رخی نے اس کی کیسا یہ اشارا کر دیا
وقت سے پہلے قیامت کا نظارا کر دیا
لاکھ کہنے پر بھی اس نے رخ پہ رکھا تھا نقاب
اک جھلک کی آرزو کو ناگوارا کر دیا
چل پڑے دامن جھٹک کر ہم کو پیچھے چھوڑ کر
تنہا آغاز سفر پر کیوں دوبارہ کر دیا
خود ہی لو امید کی اس نے جگائی اور پھر
توڑ کر امید خود ہی بے کنارہ کر دیا
کیسی بے دردی سے توڑا اس نے ناطہ پیار کا
کیوں جہاں میں پھر صباؔ کو بے سہارا کر دیا
غزل
بے رخی نے اس کی کیسا یہ اشارا کر دیا
ببلس ھورہ صبا