EN हिंदी
بے رخی نے اس کی کیسا یہ اشارا کر دیا | شیح شیری
be-ruKHi ne uski kaisa ye ishaara kar diya

غزل

بے رخی نے اس کی کیسا یہ اشارا کر دیا

ببلس ھورہ صبا

;

بے رخی نے اس کی کیسا یہ اشارا کر دیا
وقت سے پہلے قیامت کا نظارا کر دیا

لاکھ کہنے پر بھی اس نے رخ پہ رکھا تھا نقاب
اک جھلک کی آرزو کو ناگوارا کر دیا

چل پڑے دامن جھٹک کر ہم کو پیچھے چھوڑ کر
تنہا آغاز سفر پر کیوں دوبارہ کر دیا

خود ہی لو امید کی اس نے جگائی اور پھر
توڑ کر امید خود ہی بے کنارہ کر دیا

کیسی بے دردی سے توڑا اس نے ناطہ پیار کا
کیوں جہاں میں پھر صباؔ کو بے سہارا کر دیا