بے قراری دل مضطر کی بڑھائی ہم نے
آج پھر تم سے کوئی آس لگائی ہم نے
مشکلیں راہ وفا میں بھی بنائیں آساں
رسم الفت تو بہ ہر طور نبھائی ہم نے
شاید آ جاؤ کسی روز کبھی لوٹ کے تم
بس اسی آس میں ہر راہ سجائی ہم نے
تم کبھی تھے نہ ہمارے نہ کبھی ہو گے صنم
یہ سمجھنے میں بہت دیر لگائی ہم نے
ہائے دل کش وہ ادائیں دل آویز نظر
جن میں الجھے رہے اور عمر گنوائی ہم نے
کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ ہے تم سے
اپنے ہی ہاتھ سے ہستی بھی مٹائی ہم نے
رہنے والے ہیں صباؔ عرش بریں کے وہ تو
کہکشاں پھر بھی سر فرش بچھائی ہم نے

غزل
بے قراری دل مضطر کی بڑھائی ہم نے
ببلس ھورہ صبا